Categories

Sunday, April 8, 2012

اردو

اردو 


آج نہ جانے کیوں... اردو میں لکھنے کا جی چاہ رہا ہے . کہتے ہیں زبان تب تک زندہ رہتی ہے جب تک اسے بولا جائے .  ویسے میری اردو خود اتنی کوئی خاص نہیں، زیادہ تر پاکستانیوں کی طرح میں بھی ہر جملے میں انگریزی کے دو-تین الفاظ تو شامل کر ہی دیتا ہوں.

کہنے کو تو میں پنجابی ہوں...میرے والدین پنجابی ہیں اور انکی پہلی زبان بھی پنجابی ہے. میں پنجاب کے پوتوہری تحصیل راولپنڈی سے تعلق رکھتا ہوں.  اور اس  لہاز سے مجھے بولنی بھی پنجابی چاہیے.  پر آپ یہ قدرت کی کرنی کہئے یا میری اپنی پسند... جو احساس مجھے اردو کے لئے ہیں وہ کسی اور زبان کے لئے نہیں.

بچپن میں اور ٹیوی پی اکثر سنا ہے کے اردو دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے.مجھے تو اسکی تمیز، الفاظ اور طریقہ زیادہ دلفریب لگتے ہیں. افسوس، اسکول میں اردو کی کتاب کبھی سمجھ نہ آ سکی . اور "مرکزی خیال" سے زیادہ تو ہم لڑکے گالیاں سیکھنے پر قابلیت رکھتے تھے.

ہماری جماعت میں جو اردو کے استاد تھے انکا نام تھا جناب عبدل قدوس . ماشا الله
 سے انکا ٦ فوٹ سے کم کد نہیں تھا اور انکی صحت کا کوئی مقابل نہیں تھا. ایک دفع مہینے انسے پچا، "سر آپکی صحت کا راز کیا ہے؟" انہوں نے جواب میں کہا ،" ووہی جو تمہاری کمزوری کا ہے". شکر ہے وہاں لڑکیاں نہیں تھیں. خیر، زلفیں انکی جتنی ہی ریشم تھیں ، اتنا وہ زور سے اپنی گردن کو ایک جھٹکا دیا کرتے تھے... تاکے انکا پف کہیں آنکھوں کے سامنے نہ آ جائے. اب آتے ہیں انکے پڑھانے کے طریقے کی طرف ... ہماری اردو کی کتاب دو حصّوں پر مشتمل تھی. حصّہ-اول مضمون پر اور حصّہ-دوم نظموں پر. مجھے پہلے حصّے میں سے صرف ایک ہی مضمون کا نام یاد ہے، "چلتے ہو تو چین کو چلیے". خیر جب وہ نظموں پر ہے.. تب وہ ہر نظم کے ایک مصرے پر کم از کم ١٠-١٥ مناتے لگاتے تھے. اتنی تفصیل میں ایک شیر کو بیان کرنا، وہ بھی کھڑے ہو کر، اور وہ بھی بچوں کی فضول گفتگو کرنے کی بگیر پروا کیے... میری نظر میں اپنے کام   کےساتھ انصاف کرنا ہے. 

مہینے زندگی میں چیزوں پر افسوس کرنے سے گریز کرنا سیکھا ہے. پر مجھے اس چیز کا ہمیشہ افسوس رہیگا کے جب لایک لڑکیاں اپنی کاپیاں بھر رہی ہوتی تھیں، ...مہینے دو سالوں میں ایک دفع بھی استاد صاحب کے کلام پر غور نہیں کیا. مقصد انکی باتوں پر غور کر کے امتحان میں زیادہ نمبر لینا نہیں تھا... بلکے نقطہ یہ ہے کے انکو مختلف مضامین پر علم حاصل تھا اور دوسرا وہ ہر چیز کو کافی 
گہرایی اور ہر نظریے سے دیکھتے اور بیان کرتے تھے. 

خیر یہ گفتگو کہاں سے کہاں چلی گی. 

زندگی میں آپکو کیی شخصیت سے ملنے کا موقع ملتا ہے، جو آپکی شخصیت پر فرق ڈالتے ہیں ...ضروری نہیں کے وہ مکمّل ہوں ... کوشش یہی ہونی چاہیے کے انکی اچھی باتوں کو اپنا لیا جائے اور اگر فطرت اجازت دے تو عمل  بھی کر  لیا جائے ...   

No comments:

Post a Comment