Categories

Friday, January 21, 2011

سفر نامہ

A walk in the 'Rawal' Park : سفر نامہ
عریاں موہللہ سے افشاں کالونی تک  
  

عریاں موہللے سے بہار نکل کر جب مری روڈ پر نظر پھیری تو صرف گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آییں. سوچا اس بھیڑ میں جتنی دیرکرایے کی ٹیکسی میں لگے گی اتنی 
The statute of Tipu Sultan infront of
'Askari Welfare Trust' or AWT Building.

 ہی دیر پیدل بھی لگ جاےگی تو کیوں نا عقل کی سنی جائے .
میری منزل تھی صدر
. راستے میں جنگ اخبار کا دفتر گزرا. سوچا ضرور نیی منحوسیت پھیلا رہے ہونگے اپر بیٹھ کر. مریڑ چوک سے سیدھے ہاتھ کی طرف مڑ گیا. کیمیکل /گیس فیکٹری سے کچھ قدم پہلے ایک بڑھا جوڑا کھڑا تھا. ایک وین آیی جو کے مسافروں سے بھری ہوئی تھی. یہ دیکھ کر شوہر تو اندر بیٹھنے کے لئے چل پڑا پر بیوی کے چہرے پر ایک مایوسیت نمایاں ہو گیی جو بیان نہیں کی جا سکتی.
تھوڑا آگے چلا تو ڈینس سکول آ گیا جس کی چٹھی ہو چکی تھی. اس کے باہرایک بزرگ جو کے پچاس کے آس پاس کے ہوں گے . اپنے شاندار استری ہوے ٣ پیس سوٹ میں موٹر سائکل پر سوار نظر ہے. پر انکی بے قسمتی یہ تھی کے شاید انکی بایک کا پیٹرول ختم ہو چکا تھا اور وہ اس پی لگاتار جھٹکے مار رہے تھے.
تھوڑے ہی فاصلے پر ایک نو جوان نظر آیا جس کی داڑھی تھی. اس کی نظریں مسلسل نیچی رہیں پر اس کے چہرے پر اک عجیب خوشگوار قسم کی ہسی تھی. جس میں شرارت اور معصومیت کا شگل تھا

کشمیر روڈ پر میرا سیدھا سفر تھا. وہاں کامران مارکیٹ سے اگلے چوک کی طرف جاتے ہوے دو نو جوانو کو دیکھا جو سائکل پر سوار تھے. دونو نے حکومتی سکول کا یونیفارم پہنا ہوا تھا. پیچھے بیٹھا ہوا لڑکا جو کے ١٥ ، ١٦ سال کا ہو گا. اس کے چہرے پی مجھے اک پریشانی سی نظر آیی. . شاید وہ انہی مراحل سے گزر رہا ہے جو ہم سب اپ نی نو جوانی سے گزرتے ہیں
Something that I like to call, 'teenage confusion'.


زیبرا کراسنگ کی پابندی کرتے ہوے سڑک سے گزرا اور پہلے ٢٠ پھر ٤٠ روپے کی مونپھلی خریدی. ساتھ ٢٠ روپے کی ریوڑی بھی . شام پڑ گیی اور میں مال روڈ پہنچا.

ہیر ڈریسر (نائی نہیں ) کے پاس جا کر کٹنگ کروائی. عامر خان کے الفاظ میں " بال بھی کٹے ہیں اور پتا بھی نہیں چلا ہے
  
فریسکو سویٹس سے ٤ کیمے کے اور ٣ سبزی کی سموسے لئے اور چل پڑا تکسی سٹینڈ کی طرف. انکی آفر ٨٠ روپے. میری التجا ٦٠ روپے. نہیں مانے. نا سہی. میں چل پڑا مزید پیدل. ایم . ایچ. والے اشارے پر دو ٹرافک پولیس والوں کو سلام کیا اور سڑک پار کی .
 راستے میں "پاکستان ہماری پہچان " کا بورڈ دیکھ کر خوشی ہوئی . اپنے سٹریٹیجک  منیجمنٹ کے کونسپٹس تارو تازہ کرتے کرتے میں اسکری ١١ کے پاس پہنچا. اور باقی سفر اسی سوچ میں گزر گیا کے کیا واقعی میں عریاں موہللہ سے افشاں کالونی پیدل چل آیا ہوں ؟  

No comments:

Post a Comment