آج دیکھ لینے دے دنیا کو ہمارا تماشا
کے زندگی کا حاصل کچھ نظر نہیں آتا
کمبخت لے ڈوبے جذبات ہمیں ہمارے
کے دانشمند کسی کے گھربے وجہ نہیں آتا
صبر و شکر کی تعلیم دیا کرتے تھے زمانے کو
اب تو تحمل و عاجزی کو پہچانا مشکل ہے
سکرات و اقبال کو پڑھ سمجھ لیا ہم نے
رومی و باللہ کا عشق سکھانا مشکل ہے
خواب دیکھے بھی تو ایسے کے فلک کو سلام کریں
منزل تو چھوڑیے، اک قدم اٹھانا مشکل ہے
مینے دیکھے ہیں بہار، خزاں، گرم و سرد
بناتا گیا تو کبھی بگاڑتا گیا ہر فرد مجھکو
گمشدہ نہ ہو جائے میری آس، میری پیاس
کوئی قطراے فردوس پلا دے مجھکو
No comments:
Post a Comment